کلوننگ | ڈولی کی کلون شدہ بھیڑ کی کہانی
- February 9, 2023
- 830
کلوننگ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کی توجہ تب حاصل کی جب 1996 میں ایک بھیڑ (ڈولی دی شیپ) کی مصنوعی طریقے سے پیدائش کی گئی تھی۔ ڈولی پہلا ممالیہ جانور تھا جس کے لئے جوہری منتقلی nuclear transferکے عمل کو استعمال کرتے ہوئے ایک بالغ جسمانی جزو adult somatic cell سے کلون clone یعنی ہوبہو جینیاتی کاپی Exact genetic copy عمل میں لائی گئی تھی۔ اس پیش رفت نے جینیات کے میدان میں ایک اہم قدم آگے بڑھایا اور ساتھ میں اخلاقیات پر بحث کو بھی جنم دیا تھا۔ آج کی یہ ویڈیو ڈولی کی کہانی، اس کی کلوننگ کے پیچھے سائنس، اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
ڈولی کی پیدائش
ڈولی 5 جولائی 1996 کو پیدا ہوئی تھی اور اس کا نام گلوکارہ ڈولی پارٹن کے نام پر رکھا گیا۔ ڈولی کی پیدائش جینیات کے میدان میں ایک تاریخی لمحہ تھا۔ ڈاکٹر یان ولمٹ Dr. Ian Wilmutکی قیادت میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے روزلن انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف ایڈنبرگ، اسکاٹ لینڈ Roslin Institute,University of Edinburg, Scotlandمیں ڈولی کا کلون کیا۔
کلون کرنے کے عمل کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ بچوں کی قدرتی پیدائش میں ایک نر اور ایک مادہ کا جنسی میلاپ Sexual intercourseشامل ہوتا ہے اس میلاپ سے پیدا ہونے والے بچے کا ڈی این اے DNA پوری دنیا میں مختلف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ماں، باپ، بہن بھائی اور پورے خاندان سے بھی مختلف ڈی این اے ہوتا ہے اور یہ پیدائش کا قدرتی عمل ہے۔
جب کہ کلوننگ، ایک Asexual process ہے۔ جس میں نر منویہ کو شامل کئے بغیر تین بالغ مادہ بھیڑوں کے خلیے cellsکو استعمال کیا گیا تھا۔ اس عمل میں سب سے پہلی مادہ بھیڑ کے خلیے cell کو نکال کر اس میں سے nucleus کو ہٹایا گیا اور دوسری مادہ بھیڑ کے تھنوں یعنی پستانوی غدہ (Mammary gland) کے cell سے صرفnucleus اٹھا کر پہلے والی مادہ بھیڑ کے cell کے ساتھ ملایا گیا اور اب اس نئے cell کو تیسری مادہ بھیڑ کے جسم کے ایک خاص حصے میں افزائش کے لئے پانچ مہینوں تک چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں پر یہ بات رکھنا ضروری ہے کہ کلوننگ والے سب بچوں کا ڈی این اے بالکل ایک جیسا ہوتا ہے یعنی وہ کاپی ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر یان ولمٹ اور ان کی ٹیم نے ڈولی کو کامیابی سے کلون کرنے سے پہلے 277 جوہری منتقلی کے تجربات کیے تھے۔
طبی اور سائنسی اہمیت
طب اور سائنس کے میدان میں کلوننگ کے بہت سے ممکنہ فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر، اسے طبی تحقیق کے لیے جینیاتی طور پر ایک جیسے جانور پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے سائنسدانوں کو بیماریوں کو سمجھنے اور نئے علاج تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید برآں، کلوننگ کا استعمال خطرے سے دوچار انواع کو محفوظ رکھنے اور مخصوص خصلتوں کے ساتھ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جانور پیدا کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ بالغ خلیوں کی کلوننگ کرکے وہ کینسر، الزائمر اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے لیے نئے علاج تیار کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، کلوننگ کو انسانی بیماریوں کے مطالعہ کے لیے جینیاتی طور پر ایک جیسے جانور پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے محققین کو ان حالات کے بنیادی میکےنزم کو سمجھنے اور نئے علاج تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
ردِعمل
کلوننگ، بچوں کی شناخت اور انفرادیت کی نوعیت، اور ایک ہی شخص کی متعدد کاپیاں بنانے کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے۔ مثال کے طور پر، کلون کیے گئے جانوروں کی فلاح و بہبود اور پیدائشی"طریقہء کار" پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
کلوننگ میں کامیابی کی شرح نسبتاً کم ہے، اور بہت سے کلون شدہ جانور صحت کے سنگین مسائل کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ مزید برآں، کلون کیے گئے جانوروں کی عمر، قدرتی عمل کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
ایک اور اخلاقی تشویش انسانی بچے پیدا کرنے میں، کلوننگ کے استعمال کا امکان ہے۔ گوکہ انسانی کلوننگ کے تجربے ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے لیکن کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر انسانوں کا کلون بنانا ممکن ہو جاتا ہے تو دولت مند افراد یا حکومتیں اسے مخصوص جسمانی یا فکری خصلتوں کے ساتھ بچے پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ کلوننگ، اخلاقی اعتبار سے معاشرے میں سنگین نتائج مرتب ہونے کا بھی سوال اٹھاتی ہے۔ اگر ایک ہی شخص کی متعدد کاپیاں بنانا ممکن ہو جاتا تو اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرد ہونے کا کیا مطلب ہے اور آیا کلون کو ان کے اپنے حقوق اور شناخت کے ساتھ الگ الگ افراد کے طور پر سمجھا جائے گا یا نہیں؟
آخر میں
ڈولی دی شیپ، ایک بالغ سیل سے کلون کرنے والا پہلا ممالیہ جانور، 14 فروری 2003 تک زندہ رہا۔ ڈولی پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکی لیکن ڈولی کا وجود میں آنا کلوننگ کے شعبے میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔